(آپ بھی اپنے مشاہدات لکھیں، صدقہ جاریہ ہے۔ بے ربط ہی کیوں نہ ہوں، تحریر ہم سنوار لیں گے)
مارچ کی 31 تاریخ تھی۔ کوئی دو بجے دوپہر کا وقت ہو گا۔ موسم خوشگوار تھا میں باغ کی سیر کیلئے چل دیا۔ قارئین خیال کرتے ہوں گے۔ کہ یہ وقت بھی کوئی سیر کا ہوتا ہے، مگر ایک ڈاکٹر کیلئے دوپہر کے وقت کے علاوہ فرصت نکالنا بھی مشکل ہے۔ میں نے باغ میں ایک پہاڑی پر بیٹھ کر ایک کتاب کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔ دوران مطالعہ مجھے پاس ہی ایک پر لطف قہقہہ سنائی دیا۔ میں نے دفعتاً سراٹھایا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ دو خوبصورت خواتین میری طرف دیکھ کر ہنس رہی ہیں۔ میں نے نگاہ نیچی کر لی اور پھر ہر چند اپنے دل کو سمجھایا کہ وہ کسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں مگر چاروں طرف دیکھنے سے معلوم ہوا کہ میرے اور ان کے سوا وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ بہرحال میں نے ضبط سے کام لیتے ہوئے نگاہوں کو کتاب پر لگا دیا۔ پڑھنا شروع کیا تھا، حروف بھی صاف نظر نہ آتے تھے۔ میں نے بڑے تکلف سے کام لے کر دل کو سنبھال تو لیا مگر باوجود انتہائی کوشش کے مطالعہ کے لطف سے محروم رہا۔ وہ دونوں شوخ خواتین وہاں سے چل دیں۔ کوئی آدھ گھنٹہ گزرا ہو گا، میں بھی دل کو سنبھالے واپسی کے ارادہ سے اٹھا۔ جونہی میں پہاڑ سے نیچے اتر رہا تھا چند لوگوں نے جو سامنے کے پلاٹ پر کھڑے تھے”واپس ہو جائیے“ کا شور مچانا شروع کیا۔ میں ایک طرف گھوم کر ان لوگوں کے پاس چلا گیا۔ نظارہ جو دیکھا، بہت عجیب تھا۔ وہی دونوں لڑکیاں پہاڑی کے نیچے ایک جھاڑی کے پاس بیٹھیں تھیں ان کو شہد کی مکھیوں نے محاصرہ میں لے لیا تھا اور کسی نے سوکھے پتے اکٹھے کر کے ان کے پاس آگ سلگا دی تھی تا کہ مکھیاں دھوئیں سے دور ہو جائیں۔
اسی دوران میں ہم لوگوں کی طرف بھی چند مکھیاں گھومتی ہوئی آئیں اور سب کو چھوڑ کر صرف میرے سر کا طواف کرنے لگیں۔ شاید اسی لئے کہ وہ سب سگرٹ پی رہے تھے اور میں نے ابھی سگریٹ پینا سیکھا نہ تھا۔ میں بیٹھ گیا مگر مکھیاں بڑھتی گئیں۔ لوگوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ بھی دھوئیں کے نیچے چلے جائیں۔ میں نے شرم کو بلائے طاق رکھتے ہوئے ان کی رائے پر عمل کیا اور ان دونوں لڑکیوں کے پاس جا بیٹھا۔ ایک لڑکی کو کچھ مکھیاں کاٹ بھی چکی تھیں اور وہ بہت پریشان ہو رہی تھی۔ وہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں”بھائی، اس مصیبت کے وقت ہماری مدد کرو، ہم آئندہ آپ جیسے شریف لوگوں سے مذاق نہیں کریں گے۔ یہ ہمارے ا عمال بد کی سزا ہے۔“ میں نے دلاسے دیتے ہوئے ایک لڑکی سے پوچھا”آپ مجھے اپنا دو پٹہ دے سکتی ہیں؟‘ ‘ اس نے یہ کہتے ہوئے دوپٹہ میرے حوالے کر دیا، ”لیجئے یہ تو ہے بھی برائے نام!“ میں نے دوپٹہ کو ایک چھڑی کے سرے سے لپیٹ کر اسے جلا لیا اور ہم تینوں اپنے اوپر دھوئیں کا سایہ کرتے ہوئے باغ کے دروازے کی طرف چل دئیے۔
گیٹ کے پاس ہم نے ٹانگہ پکڑ لیا۔ اب مکھیاں ہمارا پیچھا چھوڑ چکی تھیں۔ مگر ہم نے احتیاطً جلتا ہوا دوپٹہ ساتھ ہی رکھا۔ گھبرائی ہوئی لڑکیوں نے کہا کہ ٹانگہ کسی ڈاکٹر کی دکان پر لے چلو۔ میں ان کو اپنی ڈسپنسری میں لے گیا۔ نادرہ(جس کو مکھیوں نے کاٹ لیا تھا)کے چہرے اور گردن سے میں نے دس بارہ ڈنگ چمٹی سے نکالے۔ میرے پاس خالص شہد موجود تھا۔ تھوڑے سے پانی میں گھول کر اس کو پلایااور کچھ عرصہ کیلئے آرام سے لیٹنے کی ہدایت کی۔ دو گھنٹے کے بعد ان دونوں نے گھر جانے کی جازت چاہی اس تھوڑے عرصہ میں جو عجیب اثر میں نے شہد کا دیکھا وہ قابل ذکر ہے۔ مریضہ کے چہرے پر سوجن نامعلوم سی رہ گئی تھی اور جلن اور صدمہ کا احساس تک مٹ چکا تھا۔ میں نے بغیر کسی قسم کا معاوضہ لئے دونوں کو رخصت کیا۔ تیسرے دن مجھے یہ خط موصول ہوا۔
محترمی ڈاکٹر صاحب!
السلام علیکم! میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ ہمارے لئے ڈاکٹر نہیں بلکہ فرشتہ ثابت ہوئے ہیں۔ ہم نے آپ کیلئے آئندہ اتوار کے روز ایک شاندار دعوت کا بندوبست کیا ہے۔ آپ ٹھیک بارہ بجے تشریف لے آئیں۔ اگر آپ نہ آئے تو ہم دونوں بہیں اتوار کے روز کھانا نہ کھائیں گی اور آپ سے ہمیشہ کیلئے۔۔۔ فقط
آپ کی نادرہ۔۔۔لاہور یکم اپریل
لیکن میں نہ گیا کیو نکہ وہ میرے لیے غیر محرم تھیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 201
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں